Mashiyat Baitar Karne Ka Asal Tarika
Islam Mein Dolat Ki Maswai Taqseem / Karobar Mein Kitna Profit Le Sakte Hain / Mashiyat Aur Soodi Nizam
Islam mein tajarat azad hai. Islam ka mutabiq cheezon ke qeematain Allah maqrar karta hai logo ko ain ke hal mein chore dain log aik dosray ke zaroorat se kamain gain. Jo apis ki unerstanding se jo qimat maqrar ki jay wo bethar hai. Hukomat ko zada free honay ki zaroorat nai hai.
اسلام میں محشیت بہتر کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ / سودی نظام کا خاتمہ کرنا
اسلام میں تجارت آزاد ہے اور لوگ ایک دوسرے کی ضرورت سے فائدہ اٹھا کر اپنی ضرورت پوری کریں گے جو کہ آپس کی رضامندی سے ہو گا۔ اگر ایک دوکاندار بہت زیادہ قیمت پر کوئی چیز بیچ رہا ہے تو گاہک کسی اور دوکاندار سے خرید لے گا کیونکہ چند لوگوں کا تجارت میں کنٹرول نہیں ہے۔
"رسول الله صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں مدینہ میں چیزوں کے نرخ بڑھ گئے لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !نرخ بہت بڑھنے لگے ہیں۔آپ ہمارے لیے قیمتوں پر کنٹرول کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا وہی مہنگا کرنے والا وہی سستا کرنے والا اور وہی رزق عطا کرنے والا ہے میں اس بات کا امیدوار ہوں۔ کہ میں اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملوں کہ کوئی شخص مجھ سے خون یا مال میں ظلم کی بناء پر مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔"
اس حدیث کی روشنی میں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ چیزوں کی قیمتیں بھی ایک حکومت طے نہیں کر سکتی۔ حکومت کا کام مینجمنٹ کا ہے۔ حکومت کو زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی جگہ ظلم ہو رہا ہو تو مجبوری کے الگ احکام ہیں جیسے دھوکے بازی، زخیرہ اندوزی، شراب نوشی، جوئے جیسے ناجائز کاروبار کو حکومت کنڑول کرے گئی۔
اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قیمیتیں مقرر کرنے سے دوکاندار یا گاہک کا تقصان ہے جو کہ ایک ظلم ہے۔ اور اس کی زمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم لینے کو تیار نہ تھے۔
اسلام نے تجارت میں سود اور ٹیکس کے نظام کو بھی رد کیا ہے۔ سود سے دولت چند ہاتھوں تک محدود ہو جاتی ہے۔ بڑے بڑے لوگ بڑے بڑے شوپینگ پلازے، شوپینگ مال بنا لیتے ہیں سودی بینک سے قرضہ لے کر جو کہ ایک قدرتی عمل نہیں ہے اور جو چھوٹے چھوٹے تاجر ہیں وہ گاہک کو ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں اور اس لیئے ان کا کم مال بکتا ہے اور دولت چند بڑے بڑے لوگوں جنوں نے سود کے قرضے پر دولت حاصل کی ہوتی ہے وہ اس کو لگا کر کسٹمرز کو اپنی طرف مائل کر لیتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے تاجر محنت مزدور کرنے والے دوکاندار نقصان میں رہتے ہیں کیونکہ ان کی سیل کم ہو جاتی ہے، ان کا کم مال بکتا ہے۔
دوسری طرف ٹیکس ہے اس سے بھی کمانے والے کی آمدنی پر اثر پڑتا ہے۔ جو کمانے والا بندہ ہے اس کی آمدنی پر جو ٹیکس لگتا ہے وہ حکومت لے جاتی ہے جبکہ اس کمانے والے کا زیادہ حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے لگائے شریحت کی پیروی کرتے ہوئے۔ صرف ایسا بندہ سال میں ایک بار زکوة دے گا اگر اس کی آمدنی، سونا اتنی ہو کہ زکوة لگے اسلام کے مطابق۔ بہرحال ٹیکس کا نظام پوری دنیا میں طالمانہ ہے لکین اب جو ٹیکس کا سسٹم نافز ہے اس وجہ سے ٹیکس ادا کرنا پڑئے گا اس لیئے کوئی بھی علماء آپ کو ٹیکس ادا کرنے سے نہیں روکتے لیکن یہ نظام صحیح نہیں ہے اس لیئے اس کے خلاف آواز ضرور اٹھانی چاہیے۔
Comments
Post a Comment